پھر رہِ عشق وہی زادِ سفر مانگے ہے

غزل| ساغرؔ نظامی انتخاب| بزم سخن

پھر رہِ عشق وہی زادِ سفر مانگے ہے
وقت پھر قلبِ تپاں دیدۂ تر مانگے ہے
سجدے مقبول نہیں بارگہِ ناز میں اب
آستاں حسن کے سجدے نہیں سر مانگے ہے
صرف آنسو نہیں اب حسن کی محفل میں قبول
حسن نذرانۂ طوفانِ شرر مانگے ہے
ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا ہے یہاں
اور شبِ تار اندھیرے سے سحر مانگے ہے
میری دنیا کے تقاضوں ہی پہ موقوف نہیں
دین بھی ایک نیا فکر و نظر مانگے ہے
عشق کو زاویۂ دید بدلنا ہوگا
جلوۂ حسن نیا ذوقِ نظر مانگے ہے

دین و دنیا ہو کہ ہوعشق و ہوس ائے ساغرؔ
ہر کوئی خونِ جگر خونِ جگر مانگے ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام