غزل میں فکر کے تازہ گلاب رکھ دینا

غزل| فاروق شکیلؔ انتخاب| بزم سخن

غزل میں فکر کے تازہ گلاب رکھ دینا
نئی سحر میں نیا آفتاب رکھ دینا
سوال کر کے پڑھوں گا تمہاری آنکھوں کو
تم اپنی آنکھوں میں اپنا جواب رکھ دینا
مری نمو کے کرشمے جو دیکھنا چاہو
مرے وجود میں اک اضطراب رکھ دینا
نہ ختم ہوگا کبھی میری تشنگی کا سفر
نظر کے آگے چمکتے سراب رکھ دینا
شکیلؔ تم کو سمجھنا اگر کوئی چاہے
تم اس کے سامنے دل کی کتاب رکھ دینا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام