دھوپ کھائے ہوئے کانٹوں میں بیابانوں کے

غزل| جوشؔ ملیح آبادی انتخاب| بزم سخن

دھوپ کھائے ہوئے کانٹوں میں بیابانوں کے
پھول جھلسے ہوئے ملتے ہیں گلستانوں کے
ہونکتی آگ کے گرادب میں پر افشاں ہیں
گل فشاں راگ طرب ناک شبستانوں کے
آج وہ شومیٔ قسمت سے ہے کاشانۂ بوم
جس درِ ناز پہ کل غول تھے دربانوں کے
سینکڑوں شہر نکل آئے دُہائی دیتے
کاش پردے نہ اٹھاتے کبھی ویرانوں کے
دوشِ افلاک پہ ہیں رقص کے خیمے غلطاں
صرصرِ وقت میں پُرزے ہیں گریبانوں کے
آج جو وقت کے پتھراؤ میں ہیں گرمِ فغاں
کل وہ بجتے ہوئے گوشے تھے صنم خانوں کے
بارہا شب کی خموشی میں کھنک اٹھتے ہیں
لبِ آفاق پہ ٹکڑے مرے افسانوں کے
دھوم سے جن کا جوانی نے نکالا تھا جلوس
آج کاندھے پہ جنازے ہیں ان ارمانوں کے
کل جہاں اہلِ خرابات کی اُتری تھی برات
اب وہاں ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
اللہ! اللہ! بگولوں کے لرزتے ذرات
یہ دھڑکتے ہوئے دل تھے کبھی انسانوں کے

گنبدِ وقت پرافشاں میں ابھی تک ائے جوشؔ
بول بیدار ہیں خوابیدہ غزل خوانوں کے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام