کس کو ملی تسکینِ ساحل کس نے سر منجدھار کیا

غزل| ظہیرؔ کاشمیری انتخاب| بزم سخن

کس کو ملی تسکینِ ساحل کس نے سر منجدھار کیا
اس طوفاں سے گزرے جس نے ندی ندی کو پار کیا
ائے فرزانو! دیوانوں کے جذبۂ دل کی قدر کرو
ان کی ایک نظر نے آتش آتش کو گلزار کیا
رنجِ محبت رنجِ زمانہ دونوں سے ہم خائف ہیں
ہم نے سوچ سمجھ کر دل کو سرگرمِ پیکار کیا
صحرا صحرا ہم نے نوکِ خار سے تلوے سہلائے
محفل محفل ہم نے اپنی وحشت کا اقرار کیا
اُن سے کہہ دو سامنے آ کر اپنے جلوے عام کریں
خلوتِ ناز میں چھپ نہ سکیں گے ہم نے اگر اصرار کیا
بستی بستی آج ہماری سعیٔ وفا کی شہرت ہے
ہم نے ظہیرؔ اک عالم کو پابندِ نگاہِ یار کیا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام