ہلکی سی توجہ دیتے ہیں مبہم سا اشارہ کرتے ہیں

غزل| عنوانؔ چشتی انتخاب| بزم سخن

ہلکی سی توجہ دیتے ہیں مبہم سا اشارہ کرتے ہیں
جب دل کی خلش دب جاتی ہے شہ دے کے ابھارا کرتے ہیں
توہینِ محبت کرتا ہے جو وصل کی حسرت کرتا ہے
عرفانِ محبت ہے جن کو فرقت ہی گوارا کرتے ہیں
ائے گردشِ دوراں یوں بھی کہیں آتا ہے تغیر دنیا میں
کونین میں چھا جانے والے گوشوں میں گذارا کرتے ہیں
ائے راحتِ ساحل کے بندو ہم عزم و عمل کے قائل ہیں
خود ڈوب کے طوفاں میں اکثر اوروں کو ابھارا کرتے ہیں
کیا آبلہ پائی کا کھٹکا کیا راہ زنی کا اندیشہ
منزل کی طرف بڑھنے والے ہر جبر گوارا کرتے ہیں
ہو عقل تو دل کے زخموں سے انساں کو سبق یہ ملتا ہے
جب دورِ الم پرور آئے ہنس ہنس کے گزارا کرتے ہیں

افسانہ جنابِ عنواںؔ کا اتنا تو کوئی ان سے کہہ دے
فرقت کی الم پرور راتیں رو رو کے گزارا کرتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام