زلف و رخ کے سائے میں زندگی گزاری ہے

غزل| منظرؔ بھوپالی انتخاب| بزم سخن

زلف و رخ کے سائے میں زندگی گزاری ہے
دھوپ بھی ہماری ہے چھاؤں بھی ہماری ہے
غم گسار چہروں پر اعتبار مت کرنا
شہر میں سیاست کے دوست بھی شکاری ہے
موڑ لینے والی ہے زندگی کوئی شاید
اب کے پھر ہواوؤں میں ایک بے قراری ہے
اک عجیب ٹھنڈک ہے اس کے نرم لہجے میں
لفظ لفظ شبنم ہے بات بات پیاری ہے
کچھ تو پائیں گے اس کی قربتوں کا خمیازہ
دل تو ہوچکے ٹکڑے اب سروں کی باری ہے
باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا
اس لئے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے

کہہ دو میرؔ و غالبؔ سے ہم بھی شعر کہتے ہیں
وہ صدی تمہاری تھی یہ صدی ہماری ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام