گئے زمانے کی صورت بدن چُرائے وہ

غزل| اخترؔ ہوشیار پوری انتخاب| بزم سخن

گئے زمانے کی صورت بدن چُرائے وہ
نئی رُتوں کی طرح پھر بھی مسکرائے وہ
ہزار میری نفی بھی کرے وہ میرا ہے
کہ میرے ہونے کا احساس بھی دلائے وہ
ہر ایک شخص یہاں اپنے دل کا مالک ہے
میں لاکھ اُس کو بلاؤں مگر نہ آئے وہ
ہوا کی آہٹیں سنتا ہوں دھڑکنوں کی طرح
مثالِ شمع مجھے رات بھر جگائے وہ
مرے بدن کو لہو رنگ پیرہن بھی دے
مری قبا سے مرے زخم بھی چھپائے وہ
تمام رات گزاری ہے کرچیاں چنتے
سحر ہوئی تو نیا آئینہ دکھائے وہ
مرا وجود کتابوں میں حرف حرف ہوا
خدا کرے مری آواز بن کے آئے وہ
وہ ایک شعلۂ جوالہ جو چھوئے جل جائے
مگر خود اپنے ہی سائے سے خوف کھائے وہ
یہ کیا کہ مجھ کو چھپایا ہے میری نظروں سے
کبھی تو مجھ کو مرے سامنے بھی لائے وہ
میں اپنے آپ سے نکلا تو سامنے وہ تھا
اور اب یہ سوچ رہا ہوں کہیں کو جائے وہ
پلٹ چکا ہوں ورق زندگی کے ائے اخترؔ
حریمِ شب میں دبے پاؤں پھر بھی آئے وہ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام