زندگی بھر زندگی کے فیصلے ہوتے رہے

غزل| اقبالؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

زندگی بھر زندگی کے فیصلے ہوتے رہے
فیصلوں میں عمرِ رفتہ پر گلے ہوتے رہے
اُن سے آخر اک ذرا سی بھول کیا سرزد ہوئی
زلزلے آتے رہے شکوے گلے ہوتے رہے
آ رہے تھے سامنے جلوہ نمائی کے لئے
آتے آتے پست اُن کے حوصلے ہوتے رہے
ڈگمگاتے ہی رہے اُن کے قدم ہر موڑ پر
اُن کی ناکامی کے یوں ہی سلسلے ہوتے رہے
کیا کہیں عشوہ طرازی کے نئے انداز کو
پیار تھا دل میں بظاہر فاصلے ہوتے رہے
دور منزل سے بہت مجھ کو اکیلا چھوڑ کر
جانے کیوں نظروں سے اوجھل قافلے ہوتے رہے
عشق ہے دل میں تو پھر کانٹوں سے گھبراتا ہے کیوں
پائے عاشق پر ہمیشہ آبلے ہوتے رہے
رہبرانِ قوم اپنی رہبری میں ہیں مگن
رہزنوں کے کارنامے دن ڈھلے ہوتے رہے
یوں تو جنت بھی ہتھیلی پر دکھانا عام ہے
اُن کے وعدے اس قدر کیوں کھوکھلے ہوتے رہے
زندگی کا ہر معمّہ دیکھنے میں ہے کھٹن
حل تدبر سے مگر سب مسئلے ہوتے رہے

مسئلہ کوئی نہیں اقبالؔ جس کا حل نہ ہو
تجربوں کی روشنی میں فیصلے ہوتے رہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام