کبھی درماں کی دعوت اور نہ تکلیفِ کرم دیں گے

غزل| شمس نویدؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

کبھی درماں کی دعوت اور نہ تکلیفِ کرم دیں گے
یہ غم جن کی نوازش ہے وہ کیسے دادِ غم دیں گے
اندھیروں کے مقابل جو رہِ منزل پہ دم دیں گے
طلوعِ صبح کے جلوے خراجِ شامِ غم دیں گے
سنا ہے زندگی کو آخرش خوابِ عدم دیں گے
بہت دیں گے سزائے جرمِ ہستی پھر بھی کم دیں گے
غمِ روزاں غمِ جاناں سے رنگیں ہو ہی جائے گا
خزاں کی نامرادی کو بہاروں کو قسم دیں گے
پرستش سے بغاوت بھی بغاوت کی پرستش ہے
پرانے ذکر کے دشمن نئے دیر و حرم دیں گے
تمنا ٹھیک ہے عرضِ تمنا جرم ہے لیکن
محبت کی خموشی کو وہ خود ہی زیر و بم دیں گے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام