پانی میں آگ دھیان سے تیرے بھڑک گئی

غزل| آرزوؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

پانی میں آگ دھیان سے تیرے بھڑک گئی
آنسو میں کوندتی ہوئی بجلی جھلک گئی
کب تک یہ جھوٹی آس کہ اب آئے وہ اب آئے
پلکیں جھکیں پپوٹے تنے آنکھ تھک گئی
ندّی بھی آنسوؤں نے بہا دی تو کیا ہوا
کھولن جو تھی لہو میں نہ وہ آج تک گئی
دونوں کو ایک کرتی ہے بڑھ کر لگی کی آگ
اُٹھی یہاں سے آنچ وہاں تک لپک گئی

جس نے اُڑا دی راتوں کی نیند اور دن کا چین
جی سے نہ پھر بھی آرزوؔ اس کی للک گئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام