دور سے آئے تھے ساقی سن کے میخانے کو ہم

غزل| نظیرؔ اکبر آبادی انتخاب| بزم سخن

دور سے آئے تھے ساقی سن کے میخانے کو ہم
بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم
مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں
دل میں آتا ہے لگا دیں آگ میخانے کو ہم
ہم کو پھنسنا تھا قفس میں کیا گلہ صیاد کا
بس ترستے ہی رہے ہیں آب اور دانے کو ہم
طاقِ ابرو میں صنم کے کیا خدائی رہ گئی
اب تو پوجیں گے اسی کافر کے بت خانے کو ہم
باغ میں لگتا نہیں صحرا سے گھبراتا ہے دل
اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے ویرانے کو ہم
کیا ہوئی تقصیر ہم سے تو بتا دے ائے نظیرؔ
تاکہ شادیٔ مرگ سمجھیں ایسے مر جانے کو ہم



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام