مشاعروں میں گویّے بلائے جاتے ہیں

بزم مزاح| خالدؔ عرفان انتخاب| بزم سخن

مشاعروں میں گویّے بلائے جاتے ہیں
گلا خراب ہے پھر بھی وہ گائے جاتے ہیں
مشاعروں کی روایت بدل گئی اب تو
طرح طرح کے ڈرامے رچائے جاتے ہیں
مشاعرہ ہے وہ تہذیبِ نَو کا خمیازہ
جہاں غزل کے جنازے اٹھائے جاتے ہیں
جو 'نثری نظم' کی معجون ختم ہوجائے
تو 'ہائیکو' کے خمیرے چٹائے جاتے ہیں
جنابِ صدر کو مسند پہ نیند آ جائے
تو پھر وہ خود نہیں اُٹھتے اُٹھائے جاتے ہیں
وہ سامعین جو مصرعہ اٹھایا کرتے تھے
ہر ایک شعر پہ تالی بجائے جاتے ہیں
جو لوگ خود کو سمجھتے ہیں شعر فہم بہت
سمجھ میں آتا نہیں سر ہلائے جاتے ہیں
مقامیوں کو یہاں کوئی پوچھتا ہی نہیں
نئے برانڈ جہازوں سے لائے جاتے ہیں
عجیب طرح کے ہیں ناظمینِ بزمِ ادب
ڈکار لیتے نہیں اور چبائے جاتے ہیں
جو پورے گھر میں مخصوص کھٹملوں کے لئے
اُسی پلنگ پہ شاعر لِٹائے جاتے ہیں
اب آ گئے ہیں ادب میں کچھ ایسے چھٹ بھیے
پروں میں جان نہیں پھڑپھڑائے جاتے ہیں
مشاعروں کی نظامت بھی مسخرہ پن ہے
جو درمیاں میں لطیفے سنائے جاتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام