خواب اس کا خیال اس کا ہے

غزل| عبد العلیم شاہینؔ انتخاب| بزم سخن

خواب اس کا خیال اس کا ہے
روح پرور جمال اس کا ہے
تیرا کیا ہے کہ تُو تو جی لے گا
سامنے پر سوال اس کا ہے
کچھ لکیریں تری ہتھیلی پر
سارا مال و منال اس کا ہے
مفلسی میں بھی مطمئن ہے بہت
ہاں یہی تو کمال اس کا ہے
ہے کسی جرم پر گرفت تیری
جو بھی ہے یہ وبال اس کا ہے
اک زمانہ میں تھا وہ شہزادہ
اب تو برعکس حال اس کا ہے
ذہن میں جب غرور داخل ہو
پھر یقیناً زوال اس کا ہے
کیوں ہے شاہینؔ اس قدر محتاط
ہر قدم پر خیال اس کا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام