حوادث ہم سفر اپنے تلاطم ہم عناں اپنا

غزل| قابلؔ اجمیری انتخاب| بزم سخن

حوادث ہم سفر اپنے تلاطم ہم عناں اپنا
زمانہ لوٹ سکتا ہے تو لوٹے کارواں اپنا
نسیمِ صبح سے کیا ٹوٹتا خوابِ گراں اپنا
کوئی نادان بجلی چھو گئی ہے آشیاں اپنا
چمن میں ہو گیا ہے عام اب سوزِ نہاں اپنا
شمیمِ گل سے بھی دامن بچائیں بجلیاں اپنا
ہمیں بھی دیکھ لو آثارِ منزل دیکھنے والو!
کبھی ہم نے بھی دیکھا تھا غبارِ کارواں اپنا
مزاجِ حسن پر کیا کیا گذرتا ہے گراں پھر بھی
کسی کو آ ہی جاتا ہے خیالِ ناگہاں اپنا
ہمیشہ شمع بھڑکے گی سدا پیمانہ چھلکے گا
تری محفل میں ہم چھوڑ آئے ہیں جوشِ بیاں اپنا
یہی دو چار تنکے تھے چمن میں کائنات اپنی
حوادث نے بنا ڈالا انہیں بھی آشیاں اپنا
ازل سے کر رہی ہے زندگانی تجربے لیکن
زمانہ آج تک سمجھا نہیں سود و زیاں اپنا
نگارانِ چمن اب بھی تبسم کو ترستے ہیں
بہاروں کو چلن سکھلا گئی شاید خزاں اپنا
جئے جاتے ہیں ہم زہرِ غمِ ایام پی پی کر
اجل بھی نام رکھ لے اب حیاتِ جاوداں اپنا
جمالِ دوست کو پیہم نکھرنا ہے سنورنا ہے
محبت نے اٹھایا ہے ابھی پردہ کہاں اپنا
جہانِ لالہ و گل شعلہ بن کر رہ گیا قابلؔ
مگر بدلا نہیں ہم نے بھی اندازِ فغاں اپنا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام