بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا

غزل| محسنؔ بھوپالی انتخاب| بزم سخن

بے خبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا
چاہے جانے کے سبھی عیب و ہنر رکھتا تھا
لا تعلق نظر آتا تھا بظاہر لیکن
بے نیازانہ ہراک دل میں گذر رکھتا تھا
اُس کی نفرت کا بھی معیار جدا تھا سب سے
وہ الگ اپنا اک اندازِ نظر رکھتا تھا
بے یقینی کی فضاؤں میں بھی تھا حوصلہ مند
شب پرستوں سے بھی امیدِ سحر رکھتا تھا
مشورے کرتے ہیں جو گھر کو سجانے کے لئے
اُن سے کس طرح کہوں میں بھی تو گھر رکھتا تھا
اُس کے ہر وار کو سہتا رہا ہنس کر محسنؔ
یہ تأثر نہ دیا میں بھی سپر رکھتا تھا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام