بتاؤ! میں کیسے لٹ گیا ہوں مری ذرا آنکھ لگ گئی تھی

غزل| عاجزؔ مالیرکوٹلوی انتخاب| بزم سخن

بتاؤ! میں کیسے لٹ گیا ہوں مری ذرا آنکھ لگ گئی تھی
ہوا جو بیدار خواب سے میں اَجل مرے سامنے کھڑی تھی
تمام اپنے پرائے چُھوٹے غم و الم کے پہاڑ ٹوٹے
میں کس لئے سرنگوں نہ ہوتا تری خوشی ہی مری خوشی تھی
مسافرِ راہِ شوق آخر تو شامِ غم سے ہے مضطرب کیوں
جہاں نہ دی مرغ نے اذاں تک وہاں بھی آخر سحر ہوئی تھی
گیا لڑکپن شباب آیا جو عیش و عشرت کو ساتھ لایا
پتا چلا تب یہ عمر کیا ہے کہ نصف جب صرف ہو چکی تھی
مقام سمجھا اسی نے ماں کا مقام پایا اسی نے اپنا
کہ ماں کی سختی کو جس نے جانا یہ اس کی بہبود و بہتری تھی
رہیں گی جب تک جہاں میں بھیڑیں رہیں گے موجود بھیڑئے بھی
یہ بات اک روز ظالموں سے ہمارے کانوں نے خود سنی تھی
جہاں میں ایسے بھی لوگ آئے گزر گئے اس طرح جہاں سے
کہ اس جہاں میں کسی سے ان کی نہ دوستی تھی نہ دشمنی تھی
ہو ریت کی رسّی گر چہ دشمن تو اس کو زہریلا سانپ سمجھو
میں کہہ رہا ہوں وہ بات تم سے کسی نے مجھ سے بھی جو کہی تھی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام