اٹّھے تری محفل سے تو کس کام کے اٹّھے

غزل| بیخودؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

اٹّھے تری محفل سے تو کس کام کے اٹّھے
دل تھام کے بیٹھے تھے جگر تھام کے اٹّھے
دم بھر مرے پہلو میں اُنہیں چین کہاں ہے
بیٹھے کہ بہانے سے کسی کام کے اٹّھے
افسوس سے اغیار نے کیا کیا نہ ملے ہاتھ
وہ بزم سے جب ہاتھ مرا تھام کے اٹّھے
دنیا میں کسی نے بھی یہ دیکھی نہ نزاکت
اُن سے نہ کبھی حرف مرے نام کے اٹّھے
جو ظلم و ستم تم نے کئے سب وہ اٹھائے
اک رنج و الم ہم سے نہ الزام کے اٹّھے
صدمے تو بہت قید میں جھیلے مرے دل نے
جھٹکے نہ مگر زلفِ سیہ فام کے اٹّھے
ہے رشک کہ یہ بھی کہیں شیدا نہ ہوں اُس کے
تربت سے بہت لوگ مرے نام کے اٹّھے
افسانۂ حسن اس کا ہے ہر ایک زباں پر
پردے نہ کبھی جس کے در و بام کے اٹّھے
آغازِ محبت میں مزے دل نے اُٹھائے
پوچھے تو کوئی رنج بھی انجام کے اٹّھے
دل نذر میں دے آئے ہم اُس شوخ کو بیخودؔ
بازار میں جب دام نہ اس جام کے اٹّھے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام