دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو

غزل| ابن انشاءؔ انتخاب| بزم سخن

دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو
اک بھیک کے دونوں کاسے ہیں اک پیاس کے دونوں پیاسے ہیں
ہم کھیتی ہیں تم بادل ہو ہم ندیاں ہیں تم ساگر ہو
یہ دل ہے کہ جلتے سینے میں اک درد کا پھوڑا الہڑ سا
نا گپت رہے نا پھوٹ بہے کوئی مرہم کوئی نشتر ہو
ہم سانجھ سمے کی چھاپا ہیں تم چڑھتی رات کے چندرما
ہم جاتے ہیں تم آتے ہو پھر میل کی صورت کیوں کر ہو
اب حسن کا رتبہ عالی ہے اب حسن سے صحرا خالی ہے
چل بستی میں بنجارہ بن چل نگری میں سوداگر ہو
جس چیز سے تجھ کو نسبت ہے جس چیز کی تجھ کو چاہت ہے
وہ سونا ہے وہ ہیرا ہے وہ ماٹی ہو یا کنکر ہو
وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں
اس سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دکھ کا سورج سر پر ہو
اب انشاؔء جی کو بلانا کیا اب پیار کے دیپ جلانا کیا
جب دھوپ اور چھایا ایک سے ہوں جب دن اور رات برابر ہو



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام