گذرے ہوئے شباب کی یوں یاد آئے ہے

غزل| ماہرؔ القادری انتخاب| بزم سخن

گذرے ہوئے شباب کی یوں یاد آئے ہے
پانی پہ جیسے کوئی لکیریں بنائے ہے
یارب ! یہ کیا مقام محبت میں آ گیا
ہے عقل بدحواس جنوں لڑ کھڑائے ہے
گذرا مرے قریب سے وہ اس ادا کے ساتھ
جس طرح کوئی آگ سے دامن بچائے ہے
دل کی لگی پہ اشک بہانے سے فائدہ
شبنم سے بھی کہیں کوئی شعلے بجھائے ہے
جگنو سمجھ کے میں نے شرارہ اٹھا لیا
احساس تیز ہو تو نظر چوک جائے ہے
دل میں کوئی امید ہی باقی نہیں رہی
پھر بھی خیال دامِ تمنا بچھائے ہے
ماہرؔ ! ابھی سے اہلِ چمن بند بند ہیں
اب کے بہار دیکھئے کیا گل کھلائے ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام