نہیں جاتی کہاں تک فکرِ انسانی نہیں جاتی

غزل| جگرؔ مراد آبادی انتخاب| بزم سخن

نہیں جاتی کہاں تک فکرِ انسانی نہیں جاتی
مگر اپنی حقیقت آپ پہچانی نہیں جاتی
طبیعت آ کے پھر تا حدِّ امکانی نہیں جاتی
نہیں جاتی نہیں جاتی یہ دیوانی نہیں جاتی
کسی صورت نمودِ سازِ پنہانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی
نگاہوں کو خزاں نا آشنا ہونا تو آ جائے
چمن جب تک چمن ہے جلوہ سامانی نہیں جاتی
مزاجِ اہلِ دل بے کیف و مستی رہ نہیں سکتا
کہ جیسے نکہتِ گل سے پریشانی نہیں جاتی
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
نگاہِ شوق کی گستاخیاں توبہ ارے توبہ
تلافی لاکھ کرتا ہوں پشیمانی نہیں جاتی
وہ یوں دل سے گذرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
چلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہیں گر گر کر
حضورِ شمع پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گذرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی

جگرؔ وہ بھی ز سر تا پا محبت ہی محبت ہیں
مگر اُن کی محبت صاف پہچانی نہیں جاتی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام