منہ سے نکلی ہوئی باتوں کا ہوا ہو جانا

غزل| رئیسؔ الشاکری انتخاب| بزم سخن

منہ سے نکلی ہوئی باتوں کا ہوا ہو جانا
مجھے معلوم ہے صحرا کی صدا ہو جانا
ایک قطرہ ہوں مگر ربط ہے دریا سے مجھے
میری معراج ہے دریا میں فنا ہو جانا
مہکے مہکے در و دیوار بھی پہچان گئے
آخرِ شب تری خوشبو کا سوا ہو جانا
تیر تو اپنی کمانوں کا کہا مان گئے
اور تقدیر نشانے کا خطا ہو جانا
لذتِ سجدہ محبت میں اگر یاد رہے
کیسے ممکن ہے نمازوں کا قضا ہو جانا
ایسا لگتا ہے مجھے منزلِ جاں دور نہیں
آ گیا عشق میں نقشِ کفِ پا ہو جانا
زندگی ساتھ جو دے جائے تو حیرت بھی نہیں
ناتواں جسم سے گردن کا جدا ہو جانا
آزری دستِ ہنر خوب بہت خوب مگر
ابھی دیکھا نہیں پتھر کا خدا ہو جانا
کسی مغرور کا اندازِ نظر تو سوچو
جیسے آسان ہو بندے کا خدا ہو جانا
ان کے بیمار کی آنکھوں میں اترنے والے
کبھی دیکھا ہے دعاؤں کا دوا ہو جانا

عشق کی راہ میں بے راہ نہ ہورجائیں کہیں
ائے رئیسؔ آپ کا بے برگ و نوا ہو جانا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام