بے سہاروں کا انتظام کرو

غزل| حفیظؔ میرٹھی انتخاب| بزم سخن

بے سہاروں کا انتظام کرو
یعنی اک اور قتلِ عام کرو
میں جفاوؤں کو بھول جاؤں گا
تم وفاوؤں کا احترام کرو
خیر خواہوں کا مشورہ یہ ہے
ٹھوکریں کھاؤ اور سلام کرو
دب کے رہنا ہمیں نہیں منظور
ظالمو! جاؤ اپنا کام کرو
خواہشیں جانے کس طرف لے جائیں
خواہشوں کو نہ بے لگام کرو
یہ ہنر بھی بڑا ضروری ہے
کتنا جھک کر کسے سلام کرو
بد دعا دے کے چل دیا وہ فقیر
کہہ دیا تھا کہ کوئی کام کرو
میزبانوں میں ہو جہاں اَن بَن
ایسی بستی میں مت قیام کرو
سانپ آپس میں کہہ رہے ہیں حفیظؔ
آستینوں کا انتظام کرو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام