علاجِ زخمِ دل ہوتا ہے غم خواری بھی ہوتی ہے

غزل| ملک زادہ منظورؔ انتخاب| بزم سخن

علاجِ زخمِ دل ہوتا ہے غم خواری بھی ہوتی ہے
مگر مقتل کی میرے خوں سے گل کاری بھی ہوتی ہے
وہی منصف وہی قاتل عدالت اس کی وہ شاہد
بہت سے فیصلوں میں اب طرفداری بھی ہوتی ہے
یہ ہے طرفہ تماشہ کربلائے عصر حاضر کا
گھروں میں قاتلوں کے اب عزا داری بھی ہوتی ہے
تعلق اُن سے ٹوٹا تھا نہ ٹوٹا ہے نہ ٹوٹے گا
بہت مضبوط زنجیرِ وفا داری بھی ہوتی ہے

وہ میرا دوست ہے منظورؔ لیکن جب بھی ملتا ہے
خلوصِ دل میں شامل کچھ ریا کاری بھی ہوتی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام