سوزِ غم دے گیا کون سا رشکِ گل یہ ہوا عشق کے کس چمن میں لگی

غزل| آرزوؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

سوزِ غم دے گیا کون سا رشکِ گل یہ ہوا عشق کے کس چمن میں لگی
آنچ دل سے اٹھی لَو جگر تک گئی منہ سے نکلا دھواں آگ تن میں لگی
تا بہ عہدِ جنوں دھوم نالوں کی تھی بیخودی جاتے ہی شرم آنے لگی
لو وہ دل کی گرہ خود بخود کھل گئی لو وہ مہرِ خموشی دہن کو لگی
یہ اچانک نظر کس طرف جا پڑی سادگی کی ادا آنکھ میں کُھپ گئی
اُف کنکھیوں سے تکنا ستم ہو گیا دل پہ برچھی اسی بانکپن میں لگی
پھر بہار آگئی گھر میں الجھن ہوئی پھر بڑھی بیخودی دھن لگی دشت کی
اُف یہ جوشِ جنوں اُف یہ گرمیٔ خوں پھول کھلنے لگے آگ بن میں لگی

آرزوؔ آرزوؔ کیا ہوا کیا ہوا چپ ہو کیوں چپ ہو کیوں کچھ کہو کچھ کہو
فق ہے منہ زرد رُخ چشم تر خشک لب چوٹ دل کو یہ کس انجمن میں لگی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام