گیسو ہیں ترے بکھرے یوں شام ہوئی جیسے

غزل| پیامؔ فتح پوری انتخاب| بزم سخن

گیسو ہیں ترے بکھرے یوں شام ہوئی جیسے
ہرسمت اندھیرا ہے بدلی ہو گھری جیسے
یہ عمر جدائی کی اس طرح گذرتی ہے
اب رات ڈھلی جیسے بس صبح ہوئی جیسے
اُجڑے ہوئے دل میں یوں پھر یاد تری آئی
ویران سے مندر میں اک شمع جلی جیسے
اک عمر سے کھویا ہوں یوں تیرے خیالوں میں
خوابوں کے جزیرے میں کھو جائے کوئی جیسے
موجیں مئے رنگیں کی شیشے میں مچلتی ہیں
ہو رقص کے عالم میں ساغر میں پری جیسے
ہنستا ہوں تو آنکھوں سے آنسو چھلک آتے ہیں
انجامِ محبت پر روتی ہے خوشی جیسے

کیا کہیئے پیامؔ اپنی الفت کا سفر کیا ہے
انجان مسافر ہو اور منزل نئی جیسے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام