کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد

غزل| شیخ محمد ابراہیم ذوؔق انتخاب| بزم سخن

کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد
سینے میں ہوگی سانس اڑی دو گھڑی کے بعد
کیا روکا اپنے گریہ کو ہم نے کہ لگ گئی
پھر وہی آنسوؤں کی جھڑی دو گھڑی کے بعد
کوئی گھڑی اگر وہ ملائم ہوئے تو کیا
کہہ بیٹھیں گے پھرایک کڑی دو گھڑی کے بعد
اس لعل لب کے ہم نے لئے بوسے اس قدر
سب اُڑ گئی مِسی کی دھڑی دو گھڑی کے بعد
اللہ رے ضعف سینے سے ہر آہ بے اثر
لب تک جو پہنچی بھی تو چڑھی دو گھڑی کے بعد
کل اُس نے ہم سے ترکِ ملاقات کی تو کیا
پھر اُس بغیر کل نہ پڑی دو گھڑی کے بعد
تھے دو گھڑی سے شیخ جی شیخی بگھارتے
ساری وہ شیخی ان کی جھڑی دو گھڑی کے بعد
کہتا رہا کچھ اس سے عدو دو گھڑی تلک
غمّاز نے پھر اور جڑی دو گھڑی کے بعد
پروانہ گرد شمع کے شب دو گھڑی رہا
پھر دیکھی اس کی خاک پڑی دو گھڑی کے بعد
تو دو گھڑی کا وعدہ نہ کر دیکھ جلد آ
آنے میں ہوگی دیر بڑی دو گھڑی کے بعد
گو دو گھڑی تک اس نے نہ دیکھا اِدھر تو کیا
آخر ہمیں سے آنکھ لڑی دو گھڑی کے بعد
کیا جانے دو گھڑی وہ رہے ذوقؔ کس طرح
پھر تو نہ ٹہرے پاؤ گھڑی دو گھڑی کے بعد



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام