ہجر کو وصل کے آثار پہ رکھا ہوا ہے

غزل| لیاقت علی عاصمؔ انتخاب| بزم سخن

ہجر کو وصل کے آثار پہ رکھا ہوا ہے
چاند اب تک مری دیوار پہ رکھا ہوا ہے
کوئی آئے بھی تو کیا کوئی نہ آئے بھی تو کیا
بوجھ میرا مرے پندار پہ رکھا ہوا ہے
کام ہی کیا ہے مجھے ترکِ تعلق کے سوا
دلِ بے زار نے بیگار پہ رکھا ہوا ہے
دوسرا وار ذرا سوچ کے کرنا ائے دوست
ہاتھ میرا ابھی تلوار پہ رکھا ہوا ہے
موسمِ لمس وہیں ٹہرا ہوا ہے اب تک
پھول اب تک ترے رخسار پہ رکھا ہوا ہے
کس طرح مان لوں میں ڈوب چکا ہوں عاصمؔ
ہاتھ اب تک مرا پتوار پہ رکھا ہوا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام