پیمانوں میں روشن کرنیں چہروں پر ہے نور بہت

غزل| اخترؔ انصاری اکبر آبادی انتخاب| بزم سخن

پیمانوں میں روشن کرنیں چہروں پر ہے نور بہت
آج تری محفل میں ساقی میکش ہیں مسرور بہت
جو کچھ ممکن ہے کرتے ہیں ہم اربابِ فکر و نظر
کوئی ہمیں مختار نہ سمجھے ہم ہیں یہاں مجبور بہت
وہ ہم سے نزدیک ہوئے تو ہوش اپنے ہم کھو بیٹھے
کوئی ہم تک کیا پہنچے گا ہم رہتے ہیں دور بہت
دل کی تمنا دل میں رہے گی ان سے ملنا سہل نہیں
ان کے جلوے ظاہر بھی ہیں لیکن ہیں مستور بہت
نغمۂ شادی نوحۂ ماتم سب کچھ ہے اس دنیا میں
جو چاہو وہ حاصل کر لو زخم بہت ناسور بہت
ہم رسوا تو ہوئے ہیں لیکن مقصد میں ناکام نہیں
آپ کی شہرت گھر گھر پہنچی آپ ہوئے مشہور بہت
ذوق و شوق کا عالم یہ ہے قرب و بعد میں فرق نہیں
کیا کہیئے نزدیک بہت ہیں وہ ہم سے یا دور بہت
میں کانٹوں سے کھیل رہا ہوں تُو پھولوں پر عاشق ہے
میرا گھر ہے جانِ بہاراں تیرے گھر سے دور بہت

اخترؔ دنیا جاگ اٹھی ہے چلو ذرا تفریح کریں
محفل محفل چھلک رہا ہے جام و سبو سے نور بہت


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام