تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے

غزل| قابلؔ اجمیری انتخاب| بزم سخن

تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کروگے
مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کررہے ہو
مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کروگے
کچھ اپنے دل پر بھی زخم کھاؤ مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو میں لڑکھڑایا تو کیا کروگے
تمہارے جلوؤں کی روشنی میں نظر کی حیرانیاں مسلم
مگر کسی نے نظر کے بدلے دل آزمایا تو کیا کروگے
اُتر تو سکتے ہو پار لیکن مآل پر بھی نگاہ کر لو
خدا نہ کردہ سکونِ ساحل نہ راس آیا تو کیا کروگے
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کروگے

ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو بگڑ کے قابلؔ سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام