لکنت جو اس نے دیکھی ہماری زبان میں

غزل| رئیسؔ الشاکری انتخاب| بزم سخن

لکنت جو اس نے دیکھی ہماری زبان میں
ٹکڑے کرم کے جوڑ دیئے داستان میں
حرفِ جنوں کی شرح میں صدیاں گذر گئیں
اللہ کامیاب کرے امتحان میں
کوئی بتاؤ کون مہکتا ہے آس پاس
کس کے بدن کی خوشبو ہے کچے مکان میں
جادو بیانیاں بھی کھٹکتی ہیں ان دنوں
کانٹے بھرے ہوں جیسے ہماری زبان میں
صرف اس لئے کہ خون کے رشتے جوان ہوں
کیا کیا بڑھاپے خرچ ہوئے خاندان میں
کیا مست گفتگو تھی فقیروں میں دیر سے
کوئی رئیسؔ بول پڑا درمیان میں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام