تم زمانہ آشنا تم سے زمانہ آشنا

غزل| احمد فرازؔ انتخاب| بزم سخن

تم زمانہ آشنا تم سے زمانہ آشنا
اور ہم اپنے لئے بھی اجنبی نا آشنا
راستے بھر کی رفاقت بھی بہت ہے جانِ من
ورنہ منزل پر پہنچ کر کون کس کا آشنا
اب کے ایسی آندھیاں اٹھیں کہ سورج بجھ گئے
ہائے وہ شمعیں کہ جھونکوں سے بھی تھیں نا آشنا
مدتیں گذریں اِسی بستی میں لیکن اب تلک
لوگ ناواقف فضا بیگانہ ہم نا آشنا
ہم بھرے شہروں میں بھی تنہا ہیں جانے کس طرح
لوگ ویرانوں میں کر لیتے ہیں پیدا آشنا
اپنی بربادی پہ کتنے خوش تھے ہم لیکن فرازؔ
دوست دشمن کا نکل آیا ہے اپنا آشنا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام