چمن میں اہلِ چمن فکرِ رنگ و بو تو کرو

غزل| شکیبؔ جلالی انتخاب| بزم سخن

چمن میں اہلِ چمن فکرِ رنگ و بو تو کرو
بجھے بجھے سے شگوفوں کو شعلہ رو تو کرو
ابھی سے جشنِ بہاراں ابھی سے شغلِ جنوں
کلی کلی کو گلستاں میں سرخ رو تو کرو
یہیں پہ لالہ و گل کا ہجوم دیکھو گے
خلوصِ دل سے بہاروں کی آرزو تو کرو
یہ کیا کہ گوشۂ صحرا میں تھک کے بیٹھ گئے
اگر قیام کرو نزد آبِ جو تو کرو
گھنیری چھاؤں کی وادی یہیں کہیں ہوگی
کڑکتی دھوپ میں سائے کی جستجو تو کرو
بلندیوں کے مکینو! بہت اداس ہیں ہم
زمیں پہ آ کے کبھی ہم سے گفتگو تو کرو
تمہیں بھی علم ہو اہلِ وفا پہ کیا گذری
تم اپنے خونِ جگر سے کبھی وضو تو کرو
نہیں ہے ریشم و کم خواب کی قبا نہ سہی
ہمارے دامنِ صد چاک کو رفو تو کرو
نگاہِ صبحِ گریزاں کی تابشوں کو کبھی
ہمارے خانۂ ظلمت کے روبرو تو کرو
طلوعِ مہرِ درخشاں ابھی کہاں یارو
سیاہیوں کے افق کو لہو لہو تو کرو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام