رہنے دے یہ طنز کے نشتر اہلِ جنوں بے باک نہیں

غزل| اخترؔ انصاری اکبر آبادی انتخاب| بزم سخن

رہنے دے یہ طنز کے نشتر اہلِ جنوں بے باک نہیں
کون ہے اپنے ہوش میں ظالم کس کا گریباں چاک نہیں
جب تھا زمانہ دیوانوں کا اب فرزانے آتے ہیں
جب صحرا میں لالہ و گل تھے اب گلشن میں خاک نہیں
فتنوں کی ارزانی سے اب ایک اک تار آلودہ ہے
ہم دیکھیں کس کس کے دامن ایک بھی دامن پاک نہیں
پاٹ بڑا سنسار کا یارو تیز ہے دھارا جیون کا
اس ساگر کو پار جو کر لے ایسا کوئی پیراک نہیں
رنگ اور روپ کے متوالو تلواروں کی جھنکار سنو
آتش و آہن کا یہ عہد ہے رنگ محل میں خاک نہیں
موجِ تلاطم خیز میں ہم ساحل کے قریب آتے ہی نہیں
وقت کی زد میں بہہ جائیں ہم ایسے خس و خاشاک نہیں

درد و کرب سے حشر بپا ہے لب پہ تبسم ہے اخترؔ
دل کا عالم کچھ بھی رہے آنکھیں تو مگر نم ناک نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام