تسکین بھی دی ارمانوں کو اور دل کو مرے تڑپا بھی گئے

غزل| پیامؔ فتح پوری انتخاب| بزم سخن

تسکین بھی دی ارمانوں کو اور دل کو مرے تڑپا بھی گئے
رنگین تمناؤں کے کھلے کچھ پھول مگر مرجھا بھی گئے
آساں نہیں ضبطِ غم کرنا دشوار ہے آنسو پی جانا
ہم بادۂ غم کے پیمانے کچھ پی بھی گئے چھلکا بھی گئے
انجامِ محبت کیا کہیئے ناشاد بھی ہیں اور شاد بھی ہیں
جو کچھ بھی ہوا پچھتانا کیا کھویا تو بہت کچھ پا بھی گئے
اظہارِ تمنا کیا کرتے جرات نہ ہوئی لب کھل نہ سکے
جو کہنا تھا ہم کہہ نہ سکے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے
کب رازِ محبت چھپتا ہے آنکھوں سے عیاں ہوجاتا ہے
ہم نے تو چھپایا لاکھ مگر وہ رازِ محبت پا بھی گئے
اِس جراتِ عشق کا کیا کہنا اظہارِ تمنا کر بیٹھے
شوخی سے مری جانب دیکھا پھر ہنس دیئے اور شرما بھی گئے
راس آئی کوئی نہ بزمِ طرب کام آئے نہ اہلِ دیر و حرم
ہم چھوڑ کے بزمِ دنیا کو پھر کوئے صنم میں آ بھی گئے
دنیا نے مٹایا ہم کو مگر مٹنے پہ بھی ہم ناکام نہیں
ہر آن بدلتی دنیا میں جس سمت گئے ہم چھا بھی گئے

گذری ہے پیامؔ اک عمر مگر اُن کو نہ کبھی ہم بھول سکے
کوشش تو بہت کی ہم نے مگر ہر سانس پہ وہ یاد آ بھی گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام