مرا بچپن بہت اچھا تھا جوانی اچھی

غزل| لیاقت علی عاصمؔ انتخاب| بزم سخن

مرا بچپن بہت اچھا تھا جوانی اچھی
بس یہیں ختم یہیں تک ہے کہانی اچھی
اب تو اک شخص کی خوشبو میں بسا رہتا ہوں
پہلے لگتی تھی مجھے رات کی رانی اچھی
لب پہ آئے تو بلا وجہ ہوس لگتی ہے
عشق کی بات تو آنکھوں کی زبانی اچھی
ابھی زندہ ہوں حقیقت کا بیاں مشکل ہے
لوگ لکھیں گے مرے بعد کہانی اچھی
کچھ قباحت نہیں دریا ہو کہ صحرا عاصمؔ
چاہیئے صرف طبیعت کی روانی اچھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام