فقیروں میں اگرچہ شانِ دارائی نہیں آتی

غزل| محمد حسین فطرتؔ انتخاب| بزم سخن

فقیروں میں اگرچہ شانِ دارائی نہیں آتی
درِ اغیار پر اُن کو جبیں سائی نہیں آتی
بہاریں لاکھ دیں خونِ جگر اپنا گلستاں پر
خس و خاشاک میں پھولوں کی رعنائی نہیں آتی
تمیزِ خیر و شر ہے فرقِ خار و گل سمجھتا ہوں
مجھے اِس کے سوا کچھ اور دانائی نہیں آتی
رہِ پُرخار میں دوگام چلنے کی بھی زحمت کر
کہ گھر بیٹھے بہارِ آبلہ پائی نہیں آتی
عقاب و زاغ دونوں مختلف ہیں اپنی فطرت میں
ہر اک طائر میں شانِ چرخ پیمائی نہیں آتی
جسے کہتے ہیں قوت وہ عزائم کی بدولت ہے
لذائذ اور فواکہ سے توانائی نہیں آتی
ہراک علم وہنر میں ایک سے اک بڑھ کے نکلا ہے
کسی بھی مدعی میں شانِ یکتائی نہیں آتی
مقدر تو کسی بھی وقت آ سکتا ہے گردش میں
نہ سوچو دورِ صد عشرت کو انگڑائی نہیں آتی

یہ دورِ ارتقاء کا آدمی ہے اس کو پہچانو
اسے ہر اک ہنر آتا ہے سچائی نہیں آتی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام