وہ جو مست آنکھوں کو مل کر رہ گئے

غزل| خمارؔ بارہ بنکوی انتخاب| بزم سخن

وہ جو مست آنکھوں کو مل کر رہ گئے
کیسے کیسے دور چل کر رہ گئے
آہ! جن اشکوں کو پی جانا پڑا
اف! جو دریا رخ بدل کر رہ گئے
لغزشیں بے کیف سجدے بے مزہ
دل جو بدلا سب بدل کر رہ گئے
ہم تو بہکے عشق میں ناصح مگر
ہائے رے وہ جو سنبھل کر رہ گئے
وقت کے ہاتھوں ہزاروں کارواں
منزلیں اپنی بدل کر رہ گئے
شمع جل اُٹھی تو پروانے جلے
بیشتر ہی کیوں نہ جل کر رہ گئے
مسکرانے کے ارادے ائے خمارؔ
بارہا اشکوں میں ڈھل کر رہ گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام