مجھے جو بھی تو نے ہنر دیا بہ کمالِ حسنِ عطا دیا

حمد| عنایتؔ علی خاں انتخاب| سید ریّان

مجھے جو بھی تو نے ہنر دیا بہ کمالِ حسنِ عطا دیا
مرے دل کو حبِّ رسول دی مرے لب کو ذوقِ نوا دیا
تری جلوہ گاہِ جمال میں مرا ذوقِ دید نکھر گیا
تری ضوفشانیٔ حسن نے مری حیرتوں کو سجا دیا
میں مدار جاں سے گزر سکا تو تری کشش کے طفیل سے
یہ ترے کرم کا کمال تھا کہ حصارِ ذات کو ڈھا دیا
میں ہمیشہ اپنے سوالِ شوق کی کم تری پہ خجل رہا
کہ تری نوازشِ بے کراں نے مری طلب سے سوا دیا
جو جمالِ روئے حیات تھا جو دلیلِ راہِ نجات تھا
اسی راہ بر کے نقوشِ پا کو مسافروں نے مٹا دیا
ترا نقشِ پا تھا جو رہنما تو غبارِ راہ تھی کہکشاں
اسے کھو دیا تو زمانے بھر نے ہمیں نظر سے گرا دیا
جو مجھے دیا ہے مجھے اسی کا حساب دینے کی فکر ہے
مجھے اس سے کوئی غرض ہو کیا اِسے کیا دیا اُسے کیا دیا
کبھی اے عناؔیتِ کم نظر ترے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسمِ رخِ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام