دسترس میں ہو نہ ہو کچھ اور بس یوں ہی سہی
16-11-2015 | ابن حسؔن بھٹکلی
دسترس میں ہو نہ ہو کچھ اور بس ، یوں ہی سہی شکر ہے آنکھیں ہیں اپنی دوررس ، یوں ہی سہی |
فاصلہ دراصل ۔۔ کرتا ہے اضافہ ۔۔۔ عشق میں کیا ہوا کچھ دور ہیں ہم ۔۔ اس برس یوں ہی سہی |
یہ بھی ممکن ہے بچھائے ۔۔ ہوں کسی نے راہ میں یہ بھی ممکن ہے کہ بس یہ خار و خس یوں ہی سہی |
شعر میرا دل میں اترے یا نہ اترے ، جو بھی ہو تیرے ہونٹوں کو تو کر جائے گا مس یوں ہی سہی |
چاہے اپنا ۔۔۔ رابطہ ہو یا نہ ہو ۔۔۔۔ اتنا تو ہو کاش وابستہ ہو تجھ سے ۔۔ ہر نفس یوں ہی سہی |
چاہے چھن ۔۔ جائے محبت میں ۔۔۔ مکمل اختیار اور پھر حاصل ہو کچھ کچھ دسترس ، یوں ہی سہی |
|
اور بھی کہنے کی باتیں ہیں مگر موقع نہیں یاں ابھی ابن حسنؔ اتنا ہی بس یوں ہی سہی |
شاعر کا مزید کلام
کسی کا ساتھ نبھانا تھا اور کیا کرتا

دسترس میں ہو نہ ہو کچھ اور بس یوں ہی سہی

مضطرب ہوں ، قرار دے اللہ

قناعت کی نظر سے بچ کے جب خواہش نکلتی ہے

وقت آخر ٹہر گیا کیسے؟

تازہ ترین اضافے

مضطرب ہوں ، قرار دے اللہ

مسلماں ہم ہیں گلہائے گلستانِ محمدؐ ہیں

حدوں سے سب گزر جانے کی ضد ہے

آ گیا ماہِ صیام

تو عروسِ شامِ خیال بھی تو جمالِ روئے سحر بھی ہے

اے رسولِ امیںؐ ، خاتم المرسلیںؐ

وہی جو خالق جہان کا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے
