ہو کر عیاں وہ خود کو چھپائے ہوئے سے ہیں

غزل| فراؔق گورکھپوری انتخاب| بزم سخن

ہو کر عیاں وہ خود کو چھپائے ہوئے سے ہیں
اہلِ نظر یہ چوٹ بھی کھائے ہوئے سے ہیں
ذوقِ نظر حدودِ فنا سے بڑھائیے
اہلِ ہوس بھی خود کو مٹائے ہوئے سے ہیں
صبحِ ازل کو یوں ہی ذرا لڑ گئی تھی آنکھ
وہ آج تک نگاہ چرائے ہوئے ہیں
حسّاس کس قدر ہے محبت کی زندگی
ہم بے خبر ہیں اور انہیں پائے ہوئے سے ہیں
ہم بدگمانِ عشق تری بزمِ ناز سے
جاکر بھی تیرے سامنے آئے ہوئے سے ہیں
بس جذبِ حسنِ یار کہیں پھر اُبھر نہ آئیں
وہ نقشِ آرزو جو مٹائے ہوئے سے ہیں
تقریبِ دید ہیں غمِ ہجراں کی شدتیں
محسوس ہو رہا ہے وہ آئے ہوئے سے ہیں
جانِ نشاط بھی ہیں خزاں دیدگانِ عشق
کچھ شوخیٔ بہار اڑائے ہوئے سے ہیں
یہ قرب و بعد بھی ہیں سراسر فریبِ حسن
وہ آکے بھی فراقؔ نہ آئے ہوئے سے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام