کنارے پہ دریا کے مردہ پڑا تھا

غزل| محمد حسین فطرتؔ انتخاب| بزم سخن

کنارے پہ دریا کے مردہ پڑا تھا
یہ قسمت کی گردش کہ وہ ناخدا تھا
مجھے پیش ہر کام پہ کربلا تھا
میں عزمِ حسینی کو لے کر چلا تھا
سکندر تُو دنیا سے رخصت ہوا جب
بجز دستِ خالی ترے پاس کیا تھا
میں تاجر کی شیریں بیانی میں گم تھا
مجھے کیا خبر تھی وہ کم تولتا تھا
مرے حق میں منصف کا یہ فیصلہ تھا
اسے قتل کر دو یہ حق بولتا تھا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام