اُس ادا سے بھی ہوں میں آشنا تجھے اتنا جس پہ غرور ہے

غزل| قتیلؔ شفائی انتخاب| بزم سخن

اُس ادا سے بھی ہوں میں آشنا تجھے اتنا جس پہ غرور ہے
میں جیوں گا تیرے بغیر بھی مجھے زندگی کا شعور ہے
نہ ہوس مجھے مئے ناب کی نہ طلب صبا و سحاب کی
تری چشمِ ناز کی خیر ہو مجھے بے پئے بھی سرور ہے
جو سمجھ لیا تجھے باوفا تو پھر اس میں تیری بھی کیا خطا
یہ خلل ہے میرے دماغ کا یہ مری نظر کا قصور ہے
کوئی بات دل میں وہ ٹھان کے نہ الجھ پڑے تری شان سے
وہ نیازمند جو سر بہ خم کئی دن سے تیرے حضور ہے
مجھے دیں گی خاک تسلّیاں تری جاں گداز تجلّیاں
میں سوالِ شوقِ وصال ہوں تو جلالِ شعلۓ طور ہے
میں نکل کے بھی ترے دام سے نہ گروں گا اپنے مقام سے
میں قتیلؔ تیغِ جفا سہی مجھے تجھ سے عشق ضرورہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام