ترے کوچے کو وہ بیمارِ غم دار الشفا سمجھے

غزل| شیخ محمد ابراہیم ذوؔق انتخاب| بزم سخن

ترے کوچے کو وہ بیمارِ غم دار الشفا سمجھے
اجل کو جو طبیب اور مرگ کو اپنی دوا سمجھے
غلط فہمی ہماری تھی جو ان کو آشنا سمجھے
ہم ان کو دیکھو کیا سمجھے تھے اور وہ ہم کو کیا سمجھے
شہیدانِ محبت خوب آئینِ وفا سمجھے
بہا خوں کوئے قاتل میں اسی کو خوں بہا سمجھے
ستم کو ہم کرم سمجھے جفا کو ہم وفا سمجھے
اور اس پر بھی نہ سمجھے وہ تواس بت سے خدا سمجھے
حکایت دل کی کہتا ہوں سمجھتے ہو شکایت ہے
تمہیں سمجھو ذرا دل میں کہ سمجھے بھی تو کیا سمجھے
عدو آیا ہے بن کر نامہ بر لکھا نصیبوں کا
کریں گے لے کے خط کیا مدعی سے مدعا سمجھے
مجھے آتا ہے رشک اس رندِ مئے آشام پر ساقی
نہ جو دَع مَا کَدَر جانے نہ جو خُذ مَا صَفَا سمجھے
نہ آیا خاک بھی رستہ سمجھ میں عمرِ رفتہ کا
مگر سمجھے تو داغِ معصیت کو نقشِ پا سمجھے

سمجھ میں ہی نہیں آتی ہے کوئی بات ذؔوق اس کی
کوئی جانے تو کیا جانے کوئی سمجھے تو کیا سمجھے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام