تری ذات کی جو شنید ہے تجھے کھوج لوں یہ بعید ہے

غزل| ابو ہریرہ آزادؔ انتخاب|

تری ذات کی جو شنید ہے تجھے کھوج لوں یہ بعید ہے
تو نصیب میرا نہیں ہے پر تری آرزو بھی شدید ہے
ترا ہجر میرا حبیب ہے ترا وصل میرا رقیب ہے
ترے قرب سے یہ پتہ چلا نہیں عشق تیرا خرید ہے
ابھی نکلے ہی ہیں سفر پہ ہم ابھی سے خفا ہو گئے ہو تم
ابھی جانا ہے بڑی دور تک تری جستجو بھی مزید ہے
ترا عشق میرا سکون ہے تجھے پانا میرا جنون ہے
تجھے کھونے کا نہیں حوصلہ مرے جینے کی تو امید ہے
مری نیند میں ترے خواب ہیں ترے خواب میں مری نیند ہے
جو بھی شب کٹے ترے وصل میں وہی شب مری شبِ عید ہے
تری دید میں مری زیست ہے مری زیست ہی تری دید ہے
ترا نام ہی مری سانس کے چلے رہنے کی تو نوید ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام