اربابِ زر کے منہ سے جب بولتا ہے پیسہ

غزل| محمد حسین فطرتؔ انتخاب| بزم سخن

اربابِ زر کے منہ سے جب بولتا ہے پیسہ
کڑوی حقیقتوں میں رس گھولتا ہے پیسہ
زنجیرِ پائے مجرم بھی اس سے ٹوٹتی ہے
ہاتھوں کی بیڑیوں کو بھی کھولتا ہے پیسہ
یہ شیخی و تعلّی ، یہ چرخ بوس دعوے
تم بولتے نہیں ہو یہ بولتا ہے پیشہ
کل وعظ کر رہے تھے محفل میں ایک واعظ
دروازہ باغِ جنت کا کھولتا ہے پیسہ
اُس وقت ہم سے سارے ہنستے ہیں بولتے ہیں
جیبوں میں اپنی فطرتؔ جب بولتا ہے پیسہ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام