زمانے سے مہر و وفا چاہتا ہوں

غزل| کیفیؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

زمانے سے مہر و وفا چاہتا ہوں
ذرا دیکھنا کس سے کیا چاہتا ہوں
سنے دل سے دل کی کہوں جس سے باتیں
وہ مونس وہ درد آشنا چاہتا ہوں
نہیں شوخ چشمی یہ جوشِ فنا ہے
کہ تجھ سے تجھے اے خدا چاہتا ہوں
یہ حسنِ طلب بھی ہے کیا لذت آئیں
جو کوئی نہیں چاہتا ، چاہتا ہوں
منوّر منوّر درخشاں درخشاں
دل و دیدہ طور آشنا چاہتا ہوں
ہر اک شے میں حسنِ ازل گو ہے پنہاں
اسی جلوہ کو برملا چاہتا ہوں
کہیں میں کہیں دل تو پھر کون جانے
وہ کیا چاہتا ہے میں کیا چاہتا ہوں
خودی جذب ہونے کو ہے بیخودی میں
کہ اپنے ہی میں گم ہوا چاہتا ہوں
میرے ذوق میں ہے لطافت پسندی
نہیں حسن ، حسنِ ادا چاہتا ہوں
زباں سے زمانے کی بچنے کو کیفیؔ
میں اک کفر ایماں نما چاہتا ہوں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام