چمن کو اپنا لہو پلایا نمودِ برگ و ثمر سے پہلے

غزل| محمد حسین فطرتؔ انتخاب| بزم سخن

چمن کو اپنا لہو پلایا نمودِ برگ و ثمر سے پہلے
گلوں میں یہ رنگ و نور کب تھا ہمارے خون جگر سے پہلے
میں کام لیتا تھا ہر قدم پر جنونِ ذوقِ سفر سے پہلے
وہ مٹ گیا راہبر کو پا کر جو لطف تھا راہبر سے پہلے
گمانِ صیاد در حقیقت تھا مری پرواز کا محرک
پروں کو دیتا ہوں اپنے حرکت میں باغباں کی نظر سے پہلے
مرے لئے آگ تھا گلستاں مرے لئے رہ گذر تھا دریا
جنوں کی شاہی مجھے تھی حاصل خیالِ نفع و ضرر سے پہلے
بغیر تدبیر و جستجو کے محال ہے با مراد ہونا
کہ بحر میں ڈوبنا ہے لازم حصولِ لعل و گہر سے پہلے
شکستہ پر ہو کے نوحہ کرنے کا کوئی موقع نہیں رہا اب
زباں ہی گلچیں نے کاٹ ڈالی مرے حسیں بال و پر سے پہلے
رہِ طلب میں وساوسِ دلِ سے بڑھ کے کوئی نہیں مزاحم
قدم مرے تیز تھے نہایت گمان و خوف و خطر سے پہلے
یہ دور تو دورِ ارتقا ہے مگر نہیں ہے سکونِ خاطر
تھا کتنا آسودہ حال انساں کمالِ علم و ہنر سے پہلے

حیات کو سازگار ماحول کی ضرورت رہی ہمیشہ
چمن سے رخصت ہوئے عنادل چمن میں رقص و شرر سے پہلے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام