معمول پہ ساحل رہتا ہے فطرت پہ سمندر ہوتا ہے

غزل| ملک زادہ منظورؔ انتخاب| بزم سخن

معمول پہ ساحل رہتا ہے فطرت پہ سمندر ہوتا ہے
طوفاں جو ڈبو دے کشتی کو کشتی میں ہی اکثر ہوتا ہے
جو فصلِ خزاں میں کانٹوں پر رقصاں و غزل خواں گذرے تھے
وہ موسمِ گل میں بھول گئے پھولوں میں بھی خنجر ہوتا ہے
اب دیکھ کے اپنی صورت کو ایک چوٹ سی دل پر لگتی ہے
گذرے ہوئے لمحے کہتے ہیں آئینہ بھی پتھر ہوتا ہے
ہر شام چراغاں ہوتا ہے اشکوں سے ہماری پلکوں پر
ہر صبح ہماری بستی میں جلتا ہوا منظر ہوتا ہے

اس شہرِ ستم میں پہلے تو منظورؔ بہت سے قاتل تھے
اب خود ہی مسیحا قاتل ہے یہ ذکر برابر ہوتا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام