تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

غزل| فیض احمد فیضؔ انتخاب| بزم سخن

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
حدیثِ یار کے عنواں ابھرنے لگتے ہیں
تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں
ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے
جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں
صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکرِ وطن
تو چشمِ صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں
وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری
فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں
درِ قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام