چپکے چپکے غم کا کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے

غزل| شیخ محمد ابراہیم ذوؔق انتخاب| بزم سخن

چپکے چپکے غم کا کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
جی ہی جی میں تلملانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
ابر کیا آنسو بہانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
برق کیا ہے تلملانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
ذکرِ شمعِ حسن لانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
ان کو درپردہ جلانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
جھوٹ موٹ افیون کھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
ان کو کف لا کر ڈرانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
سن کے آمد ان کی از خود رفتہ ہو جاتے ہیں ہم
پیشوا لینے کو جانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
ہم نے اول ہی کہا تھا تو کرے گا ہم کو قتل
تیوروں کا تاڑ جانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
لطف اٹھانا ہے اگر منظور اس کے ناز کا
پہلے اس کے ناز اٹھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
جو سکھایا اپنی قسمت نے وگرنہ اس کو غیر
کیا سکھائے گا سکھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
دیکھ کر قاتل کو بھر لائے خراشِ دل میں خوں
سچ تو یہ ہے مسکرانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
تیر و پیکاں دل میں جتنے تھے دیے ہم نے نکال
اپنے ہاتھوں گھر لٹانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
کہہ دو قاصد سے کہ جائے کچھ بہانے سے وہاں
گر نہیں آتا بہانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
خط میں لکھوا کر انہیں بھیجا تو مطلع درد کا
دردِ دل اپنا جتانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
جب کہا مرتا ہوں وہ بولے مرا سر کاٹ کر
جھوٹ کو سچ کر دکھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
واں ہلے ابرو یہاں پھیری گلے پر ہم نے تیغ
بات کا ایما سے پانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
تیغ تو اوچھی پڑی تھی گر پڑے ہم آپ سے
دل کو قاتل کے بڑھانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
زخم کو سیتے ہیں سب پر سوزنِ الماس سے
چاک سینے کے سلانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
پوچھے ملّا سے جسے کرنا ہو سجدہ سہو کا
سیکھے گر اپنا بھلانا کوئی ہم سے سیکھ جائے
کیا ہوا اے ذوقؔ ہیں جوں مردمک ہم رو سیاہ
لیکن آنکھوں میں سمانا کوئی ہم سے سیکھ جائے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام